فتی تقی عثمانی صاحب کے بیان میں سنا. (ایک عرب نوجوان کا کہنا ہے کہ)

                                                                     
                                                              
ایک صاحب کسی بزرگ سے کہنے لگے مجھے سجدے میں برے خیالات آتے ہیں میری نماز اور سجدے کسی کام کے نہیں بس ٹکریں ہی ہیں.

بزرگ نے فرمایا اگر تمہارے سجدے کسی کام کے نہیں بس ٹکریں ہی ہیں تو ایسا کرو مجھے سجدہ کر لیا کرو.

بولا: جی ایسا تو نہیں کر سکتا.

فرمایا اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ سجدہ چاہے جیسا بھی ہے بے قیمت اور فضول نہیں ہے. کچھ قیمت رکھتا ہے. جبھی ہر کسی کو نہیں کیا جاسکتا. چاہے دیہان نصیب نہ ہو لیکن رب کے سامنے پیشانی ٹیکنے کی سعادت تو نصیب ہوئی ہے. اس سجدے کو بے قیمت مت سمجھو. اس توفیق کی ناشکری نہ کرو. ہاں سجدے میں دھیاان پیدا کرنے کی کوشش کرتے رہو.

                                                      
. *•═༻ ༺═•*
ایک عرب نوجوان کا کہنا ہے کہ : اُن دنوں جب میں ھالینڈ میں رہ رہا تھا تو ایک دن جلدی میں ٹریفک قانون کی خلاف ورزی کر بیٹھا۔ بتی لال تھی اور سگنل کے آس پاس کوئی نہیں تھا، میں نے بھی بریک لگانے کی ضرورت محسوس نہ کی اور سیدھا نکل گیا۔ چند دن کے بعد میرے گھر پر ڈاک کے ذریعے سے اس خلاف ورزی "وائلیشن" کا ٹکٹ پہنچ گیا۔ جو اُس زمانے میں بھی 150 یورو کے برابر تھا۔

ٹکٹ کے ساتھ لف خط میں خلاف ورزی کی تاریخ اور جگہ کا نام دیا گیا تھا، اس خلاف ورزی کے بارے میں چند سوالات پوچھے گئے تھے، ساتھ یہ بھی کہا گیا تھا کہ آپ کو اس پر کوئی اعتراض تو نہیں؟

میں نے بلا توقف جواب لکھ بھیجا: جی ہاں، مجھے اعتراض ہے۔ کیونکہ میں اس سڑک سے گزرا ہی نہیں اور نہ ہی میں نے اس خلاف ورزی کا ارتکاب کیا ہے۔

میں نے یہ جان بوجھ کر لکھا تھا اور یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ یہ لوگ اس سے آگے میرے ساتھ کیا کرتے ہیں؟

میرے خط کے جواب میں لگ بھگ ایک ہفتے کے بعد محکمے کی طرف سے ایک جواب ملا۔ ان کے خط میں میری کار کی تین تصاویر بھی ساتھ ڈالی گئی تھیں۔ پہلی سگنل توڑنے سے پہلے کی تھی، دوسری میں میں گزر رہا تھا اور بتی لال تھی، تیسری میں میں چوک سے گزر چکا تھا اور بتی ابھی تک بھی لال تھی۔

یعنی سیدھا سادا معاملہ تھا، میں جرم کا مرتکب تھا تو اس کا مطلب یہی تھا کہ میں مرتکب ہوا تھا اور بس۔ نہ بھاگنے کی گنجائش اور نہ مکر جانے کا سوال۔ چپکے سے اقرار نامہ لکھ بھیجا، جرمانہ ادا کیا اور چُپ ہو گیا۔

                                                            
کچھ دنوں کے بعد تلاوت کرتے ہوئے، جب میں نے سورت جاثیہ کی یہ آیت پڑھی "یہ رہا ہمارا تیار کرایا ہوا اعمال نامہ، جو تمہارے اوپر ٹھیک ٹھیک گواہیاں دے رہا ہے، جو کچھ بھی تم کرتے تھے، ہم اُسے لکھواتے جا رہے تھے"

هَـٰذَا كِتَابُنَا يَنطِقُ عَلَيْكُم بِالْحَقِّ ۚ إِنَّا كُنَّا نَسْتَنسِخُ مَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿سورة الجاثية - ٢٩﴾

آیت میں "كُنَّا نَسْتَنسِخُ - ہم فوٹو بنا لیا کرتے تھے"، یعنی الله تعالٰی کے پاس بھی فوٹو مشین ہے؟ خوف سے میرے جسم کے بال کھڑے ہو گئے تھے: یعنی بندے کی بنی ہوئی مشین سے تو میں بھاگ نہیں سکا، الله کی بنائی ہوئی مشین!!!! ساتھ ساتھ فوٹو بھی بناتی ہے؟ کدھر ہوگا بھاگنے کا راستہ؟ کونسا بنے گا بہانہ مُکر جانے کا؟

یعنی کہ ہمارے اعمال نسخ کیئے جارہے ہیں، کچھ بھی نہیں بھلایا جا رہا، ہارڈ ڈسک کے خراب ہونے، میموری کے فارمیٹ ہو جانے، آندھی بارش طوفان کی وجہ سے کچھ خرابی پیدا ہونے کا کہیں بھی کوئی اندیشہ نہیں۔ کوئی ھیکر پہنچ نہ پائے کوئی وائرس خراب نہ کر پائے، ہائے یہ کیسا کمپیوٹر ریکارڈ ہوگا؟

یا الهی: سارے گناہ لکھوائے جارہے ہیں کیا؟
تاریخ کے ساتھ؟
مقام اور جگہ کے ساتھ؟
بیک گراؤنڈ کے ساتھ؟
رنگین پرنٹ میں؟
نشانی والے کپڑوں میں؟
اسباب، متاب اور مال کی نشانیوں کے ساتھ؟
مقاصد اور مطالب کے ساتھ؟
آڈیو اور ویڈیو کے ساتھ؟

ہائے ہم تو لُٹ گئے "الله نگاہوں کی چوری تک سے واقف ہے اور وہ راز تک جانتا ہے جو سینوں نے چھپا رکھے ہیں (سورة غافر-19)

ہائے: یہ سب کچھ ہم پر پیش کر دیا جائیگا؟

"اور نامہ اعمال سامنے رکھ دیا جائے گا اس وقت تم دیکھو گے کہ مجرم لوگ اپنی کتاب زندگی کے اندراجات سے ڈر رہے ہوں گے اور کہہ رہے ہوں گے کہ ہائے ہماری کم بختی، یہ کیسی کتاب ہے کہ ہماری کوئی چھوٹی بڑی حرکت ایسی نہیں رہی جو اس میں درج نہ ہو گئی ہو جو جو کچھ انہوں نے کیا تھا وہ سب اپنے سامنے حاضر پائیں گے اور تیرا رب کسی پر ذرا ظلم نہ کرے گا (سورة الكهف - 49)

*** ایک نصیحت جو سب سے پہلے میرے اپنے لیئے ہے

                                                           

Comments